Assalamu alaikum warahmatullahi wabarakatuhu
What is the Sharia ruling with regards to showing the relatives and the other worshippers the face of a deceased person in the coffin?
بسم الله الرحمٰن الرحيم
الجواب حامداً ومصلياً
As-salāmu ʿalaykum wa-raḥmatullāhi wa-barakātuh.
Respected Muftī Abrar Ṣāḥib,
I sincerely apologize for my delayed response.
In and of itself, showing the face of the deceased is permissible.[1] However, at times, permissible and even mustaḥabb acts are contaminated with bidʿāt (innovations). When that occurs, those acts that are, in and of themselves, permissible or mustaḥabb must be abandoned to prevent the impermissible (innovations) from occurring and becoming, in the eyes of the masses, a part of dīn (والعياذ بالله).[2] As ʿulamāʾ, it is our duty to be mindful of taking a stand against bidʿāt with ḥikmah.[3]
There is some leeway in showing the face of the deceased to those relatives who come from far away, but this dispensation is restricted only to them.[4] In this day and age, the face should not be uncovered for the following reasons:[5]
- In some places, showing the face of the deceased is considered necessary, and sometimes is considered a means of reward. Accordingly, they consider not showing the face blameworthy or even a violation of the rights of the family of the deceased. Even if it is not considered to be integral by the ones who uncover the face, it will help give this action currency.
- It is possible that the face of the deceased undergoes a negative change.[6] This can be due to a medical reason or due to a divine punishment (may Allāh protect us all). In the case of the former, though the cause may not be due to punishment, negative thoughts and assumptions can settle in the mind of those who see the face of the deceased.
- If the deceased is a well-known or beloved personality, a great amount of time will be spent in people coming to look at his face. Additionally, it will lead to some people crying and lamenting over his death. Delaying the burial and wailing over the deceased are both prohibited.
- Perhaps the biggest bidʿah of our day, and an act that must be stopped, is taking videos and pictures of the deceased. The burial should be a time of ʿibrah (contemplating one’s own death), but rather than this, self-appointed cameramen, though their intention may seem good to themselves, view the entire process through the lens of their phone. There is no need to record, FaceTime or video call others to show them the burial. It is a time for those present to focus on their own inevitable end. The most beloved ﷺ passed away and yet, a Ṣaḥābī who he ﷺ himself told that he loved[7] was not present for hisﷺ burial.
For the reasons listed above, the face of the deceased should not be shown to the public after the ghusl is completed. The statements of many senior muftīs have been included in the references.
May Allāh guide as all and give us a good ending.
والله تعالى أعلم وعلمه أتم وبه التوفيق
And Allāh Taʿālā Knows Best
Muftī Mohammed Wahaajuddin bin Salauddin
(May Allāh forgive him and his parents)
—
الفتاوى الهندية، كتاب الكراهية، الباب السابع عشر في الغناء واللهو وسائر المعاصي والأمر بالمعروف، ج٥ ص٣٥١، مطبعة الكبرى
ولا بأس بأن يرفع ستر الميت ليرى وجهه وإنما يكره ذلك بعد الدفن كذا في القنية
كفاية المفتي جديد، ج٤ ص٤٥، دار الاشاعت
سوال: مردے کو پبر میں لٹا کر اس کا منہ دیکھنا جائز ہے کہ نہیں؟
جواب: جائز ہے۔ وفي حاشته: بشرطیکہ تدفین میں تاخیر نہ ہو اور اس کو ثواب نہ سمجھتے ہوں اور اس کو رواج نہ دیا جائے ، اس زماننے میں اس سے پرہیز ہی بہتر ہے۔
أحكام القرآن للتهانوي، ج١ ص٥٤ تحت قوله تعالى: { يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انظُرْنَا وَاسْمَعُوا الآية}، إدارة القرآن
اتفقت الأمة على أن الأمر المباح أو المستحب إذا لحقه منكر وصار ذريعة لمعصية أو بدعة، وإن لم يكن ذلك قصد العامل وغرضه، وجب إزالة هذه المعصية كيفما كان. ثم اختلفوا، فمنهم من قال: يترك هذا المستحب رأساً لسد الذرائع المعصية، وحسما لمادة الابتداع في الدين. ومنه من قال: يزاح هذا المنكر ولا يترك لأجله المعروف المستحب، وإلى الأول ذهبت الحنفية والمالكية والحنابلة.
كتاب النوازل، ج٦ ص٦٠-٦١، دار الاشاعت
شرعی حکم یہ ہے کہ انتقال کے بعد میت کی جلد از جلد تجہیز و تکفین اور تدفین کی جائے، بلا کسی خاص وجہ کے ہرگز تأخیر نہ کی جائے، لہذا مسئولہ صورت میں میت کی رونمائی کی رسم جس کی وجہ سے خواه مخواه نماز جنازه اور تدفین میں تأخیر ہوتی ہے، ممنوع اور قابل ترک ہے
علماء کو اس پر نکیر کرنی چاہے.. نیز بعض دفعہ میت پر آثار آخرت کا ظہور ہونے لگتا ہے، خدانخواستہ صورت میں تغیر آجائے یا کوئی عیب ظاہر ہوجائے تو ایک مسلمان کی ہتک حرمت اور افشاء عیب لازم آتا ہے، جو شرعا ممنوع ہے
فتاوى قاسميه، ج٩ ص٥٥٦
نماز جنازہ کے بعد دفن سے قبل میت کی صورت دیکھنا صرف کور کراز سے آئے ہوئے اعزاء و اقرباء کے لئے جائز ہے کہ جنہوں نے ابھی صورت نہیں دیکھی ہے۔ لیکن عام لوگوں کے لئے اس کی اجازت نہیں ہے مبادا آثار برزخ کی وجہ سے میت کی صورت وغیرہ میں تغیر آجائے تو ایک مسلمان کی ہتک حرمت ہوگی جو ممنوع ہے۔ نیز اس کی وجہ سے دفن وغیرہ میں تاخیر لازم آئے گی جو بروئے حدیث ممنوع ہے۔
أحسن الفتاوى، ج٤ ص٢٢٩-٢٣٠، میت کا منہ دکھانے کی رسم، سعيد
اس رسم میں مندرجئہ جیل مفاسد ہیں، اس لئے واجب الترک ہے:
۱) بعض علاقوں میں میت کا منہ دیکھنے کو باعث آجر و ثواب سمجھا جاتا ہے، حالانکہ شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں، لہذا اس میں ثواب سمجھنا بدعت ہے ، اور اگر شواب نہ بھی سمجھے تو اس سے بدعت کی ترویج وتائید ہوتی ہے۔
۲)شرعی حکم یہ ہے کہ میت کو غسل دیتے وقت اور کفناتے وقت کم سے کم آدمی ہوں، اور وه میت کے اقارب و احباب میں سے ہوں، تاکہ میت میں خدانخواستہ کوئی عیب یا تغیر پیدا ہوجائے تو اس کا افشاء نہ ہو، منہ دکھانے کے رسم شریعت کے اس حکم و حکمت کے خلاف ہے
۳) اگر میت کوئی مشہور شخصیت ہو تو اس کی منہ دکھائی کی رسم میں کئی گھنٹے صرف کئے جاتے ہیں حالانکہ میت کے دفن میں تأخیر جائز نہیں
۴) رونمائی کی رسم کا نتیجہ یہ ہے کہ میت کی تصویریں لے کر اخبارات میں شائع کی جاتی ہیں، جس میں تصویر کی لعنت و عذاب کے علاوه میت کے چہرے میں تغیر کی اشاعت ہے، جو حرام ہے
آج کل یہ قبیح رسم خواص علماء میں بھی عام رائج ہو گئی ہے، اس لئے اس سے احتراز کی وصیت کرنا واجب ہو، وصیت نہ کرنے کی صورت میں اس کا وبال وعذاب میت پر بھی ہوگا۔ والله الحفيظ.
فتاوى قاسميه، ج٩ ص٥٥٤-٥٥٥
نماز جنازہ کے بعد میت کا چہرہ دیکھنا فی نفسہ جائز ہے؛ لیکن چونکہ فی زماننا یہ ایک رسم بن گئی ہے اور اس میں بہت سی خرافات اور مفسدات شامل ہوگئی ہیں، جیسا کہ کار ثواب اور مسنون سمجھ کر باقاعدہ اعلان کر کے چہرہ دیکھنے کے لئے لوگوں کو بلایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے دفن میں تاخیر ہوتی ہے، جو ممنوع ہے۔۔۔نیز اس میں یہ بھی خطرہ ہے کہ اگر خدانخواستہ چہرے میں کچھ تغیر یا عیب ظاہر ہوگیا، تو ایک مسلمان کی ہتک حرمت اور افشاء عیب لازم آتا ہے جو منع ہے۔۔۔ان خرابیوں کی وجہ سے منع کیاجاتاہے؛ لہٰذا فتاوی رشیدیہ قدیم ۲۷۱؍ کے فتوی کا تعلق اس صورت سے ہے؛ جبکہ مفسدات اور خرابیاں نہ پائی جائیں، اور ایضاح المسائل میں درج مسئلہ کاتعلق اس صورت سے ہے کہ جب مفسدات اور خرابیاں شامل ہوجائیں؛ کیونکہ ایسی صورت میں امر مباح محظور ہوجاتا ہے؛ لہٰذا دونوں فتاوی میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ فقط واﷲ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
رد المحتار، كتاب الصلاة، باب صلاة الجنائز، ج٢، سعيد
ص١٩٣: (قوله ويسرع في جهازه) لما رواه أبو داود عنه ﷺ لما عاد طلحة بن البراء وانصرف قال ما أرى طلحة إلا قد حدث فيه الموت فإذا مات فآذنوني حتى أصلي عليه وعجلوا به فإنه لا ينبغي لجيفة مسلم أن تحبس بين ظهراني أهله.
ص٢٠٢: وينبغي للغاسل ولمن حضر إذا رأى ما يحب الميت ستره أن يستره ولا يحدث به لأنه غيبة وكذا إذا كان عيبا حادثا بالموت كسواد وجه ونحوه.
سنن النسائي #1303
عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ أَخَذَ بِيَدِي رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ ” إِنِّي لأُحِبُّكَ يَا مُعَاذُ ” . فَقُلْتُ وَأَنَا أُحِبُّكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ . فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ” فَلاَ تَدَعْ أَنْ تَقُولَ فِي كُلِّ صَلاَةٍ رَبِّ أَعِنِّي عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ